نومولود بچے کے کان میں آذان دینے کا کیا حکم ہے؟

فتوی نمبر 109

مفتی واجد اقبال صاحب


نومولود بچے کے کان میں آذان دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور صحابہ وتابعین سے ثابت نہیں ہے، اس بارے میں جتنی بھی روایات ہیں ساری ضعیف ہیں


نومولود بچے کے کان میں آذان

نومولود بچے کے کان میں آذان دینا سنت نہیں ہے اس بارے میں موجود روایات کی تحقیق ملاحظہ فرمائیں


حسن بن علیؓ کی پیدائش کے وقت آذان

1: عن ‌عبيد الله بن أبي رافع ، عن ‌أبيه قال: «رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أذن في أذن الحسن بن علي» حين ولدته فاطمة بالصلاة.

عبیداللہ بن ابی رافع اپنے والد ( سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے حسن بن علیؓ کے کان میں (اس وقت) آذان دی جب فاطمہؓ نے ان کو جنم دیا۔(سنن الترمذی ١٥١٤) اس کی سند ضعیف ہے، اس کی سند میں عاصم بن عبید اللہ العمری منکر الحدیث ہے، امام ابن حبان اور ابن طاہر المقدسی نے اس حدیث کو عاصم بن عبید اللہ کی منکرات میں شمار کیا ہے۔


ابن عباسؓ اور دیگر صحابہ کی روایات

2: عن ابن عباس أن النبي - صلى الله عليه وسلم - أذن في أذن الحسن بن علي يوم ولد، فأذن في اليمنى، وأقام في اليسرى.

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی ولادت کے دن ان کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔( شعب الایمان للامام البیہقی ٨٢٥٥)
یہ حدیث موضوع ہے، اس کی سند میں حسن بن عمر بن یوسف السدوسی کذاب، منکر الحدیث ہے۔


3:عن ابن عمر: أن النبي صلى الله عليه وسلم أذن في أذن الحسن والحسين رضي الله عنهما حين ولدا.

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کی پیدائش کے وقت ان کے کان میں آذان کہی۔(فوائد للامام تمام ٣٣٣) یہ حدیث موضوع ہے، اس کی سند میں قاسم بن حفص العمری کذاب ہے۔


4: عن حسين، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "من ولد له فأذن في أذنه اليمنى وأقام في أذنه اليسرى، لم تضره أم الصبيان.

سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہے، تو اُسے اُمُّ الصِّبيان (یعنی شیطانی اثرات یا جنّاتی آسیب) نقصان نہیں دیں گے۔(مسند ابی یعلیٰ ٦٧٨٠) یہ حدیث باطل ہے، اس کی سند میں
١:جبارہ بن مغلس متروک الحدیث ہے،
٢:یحیی بن علاء متروک الحدیث ہے،
٣:مروان بن سالم الجزری متروک الحدیث، منکر الحدیث ہے


شیخ الاسلام سلیمان بن ناصر العلوان حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

الحديث الوارد في الأذان في أذن المولود ضعيف لا يصح عن النَّبي وكذلك الإقامة في أُذن الصَّبيّ لا يثبت في ذلك حديث عن رسول الله، كل الأخبار في هذا مُنكرة.

نومولود کے کان میں آذان دینے کے بارے میں وارد حدیث ضعیف ہے، نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ اسی طرح بچے کے کان میں اقامت کہنے کے بارے میں بھی رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث ثابت نہیں ہے۔ اس بارے میں جتنی بھی روایات ہیں، سب منکر ہیں۔

شیخ عبد العزیز الطریفی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

الآذان في إذن المولود لا اعلمه واردا من وجه معتبر عن الصحابة او التابعين او اتباعهم ولا هو من عملهم وما رواه عبد الرزاق في مصنفه ان عمر بن عبد العزيز كان إذا ولد له ولد، آخذه كما كما هو في خرقته، فاذن في اذنه اليمني وقام في اذنه اليسري وسماه مكانه، فتفرد به ابن ابي يحيي وهو منكر الحديث.

نومولود بچے کے کان میں آذان دینا، میں اسے صحابہ، تابعین یا تبع تابعین سے معتبر سند سے نہیں جانتا، اور نہ ہی یہ ان کا عمل تھا۔
اور جو روایت امام عبد الرزاق نے نقل کی ہے کہ جب عمر بن عبد العزیز کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تو وہ بچے کو جیسے کہ وہ کپڑے میں لپٹا ہوتا، اٹھاتے پھر اس کے دائیں کان میں آذان اور بائیں میں اقامت کہتے، اور وہیں اس کا نام رکھتے۔
اس میں ابن ابی یحیی کا تفرد ہے اور وہ منکر الحدیث ہے۔ (مسائل المهمة فی الآذان والاقامة ٩٢)

اکثر پوچھے گئے سوالات

کیا نومولود کے کان میں آذان دینا نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے؟

جواب: نہیں، اس بارے میں وارد تمام روایات ضعیف یا موضوع ہیں۔

کیا صحابہ یا تابعین سے یہ عمل ثابت ہے؟

جواب: معتبر سند سے یہ عمل نہ صحابہ اور نہ تابعین سے ثابت ہے۔

کیا اس عمل کے پیچھے کوئی صحیح حدیث ہے؟

جواب: موجود احادیث یا تو ضعیف ہیں یا منکر یا موضوع۔

شیخ سلیمان العلوان اور شیخ الطریفی کا موقف کیا ہے؟

جواب: دونوں علمائے کرام اس عمل کو غیر ثابت شدہ اور منکر روایتوں پر مبنی قرار دیتے ہیں۔

نتیجہ:

نومولود کے کان میں آذان دینا نہ تو نبی کریم ﷺ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے، اور نہ ہی کسی صحابی، تابعی یا تبع تابعی سے۔ تمام روایات ضعیف، منکر یا موضوع ہیں۔ لہٰذا اس عمل کو سنت سمجھ کر اپنانا درست نہیں۔