جنس العمل کو ترک کرنے والے کے بارے میں سلف کا کیا عقیدہ ہے؟

فتوی نمبر 108

مفتی واجد اقبال صاحب


جنس العمل کو ترک کرنے سے مراد اعضاء کے عمل کو مکمل طور پر ترک کر دینا ہے جیسے کوئی انسان کلمہ تو پڑھے لیکن نہ وہ دین سیکھے اور اس پر عمل کرے، ایسا شخص سلف (صحابہ وتابعین) کے نزدیک مسلمان نہیں ہے۔


جنس العمل کو ترک کرنے والے کا حکم

سلف (صحابہ وتابعین) کے نزدیک ایمان کے تین ارکان ہیں۔
1: دل سے تصدیق کرنا،
2: زبان سے اقرار کرنا،
3: اعضاء سے عمل کرنا۔
ان میں سے کسی ایک کو ترک کرنے سے انسان کافر ہو جاتا ہے۔ جو دل سے تصدیق نہ کرے وہ منافق ( بدترین کافر) ہے، جو زبان سے اسلام کا اقرار نہ کرے وہ بھی کافر ہے اور جو دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کرے لیکن اس کے مطابق عمل نہ کرے یعنی بلکل یہ عمل کو ترک کر دے وہ بھی کافر ہے، اسے کفر اعراض کہتے ہیں۔
جبکہ مرجئہ کے نزدیک ایمان دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے عمل ایمان کے لیے ضروری نہیں اور غالی مرجئہ ( جہمیہ) کے نزدیک ایمان صرف تصدیق کا نام ہے زبان سے اقرار کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

اہل سنت کی تصریحات


امام حسن بصری رحمہ اللہ المتوفی١١٠ھ فرماتے ہیں:

الإيمان قول ولا قول إلا بعمل ولا قول وعمل إلا بنية ولا قول وعمل ونية إلا بسنة۔

ایمان قول ہے اور قول بغیر عمل کے کچھ نہیں( معتبر نہیں) اور قول و عمل بغیر نیت (تصدیق) کے کچھ نہیں اور قول عمل اور نیت، یہ سب کچھ سنت کے مطابق نہ ہوں تو کچھ نہیں۔
(الابانۃ الکبری لابن بطہ١٠٩٠، الشریعہ للآجری ٢٥٨)

امام ابن عیینہ المتوفی ١٩٨ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

الإيمان قول وعمل، أخذناه ممن قبلنا قول وعمل: وأنه لا يكون قول إلا بعمل.

ایمان قول اور عمل نام ہے۔ ہم نے یہ (عقیدہ) اپنے سے پہلے والوں سے لیا ہے کہ ایمان قول اور عمل دونوں پر مشتمل ہے، اور یہ کہ قول عمل کے بغیر معتبر نہیں ہے۔ (السنۃ لعبد اللہ بن الامام احمد ٧٣٨)
امام ابن عیینہ رحمہ اللہ اس بات کی وضاحت فرما رہے ہیں کہ سلف صالحین کے نزدیک ایمان صرف زبان سے اقرار کا نام نہیں بلکہ اس کے ساتھ عمل بھی لازمی ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ المتوفی ٢٠٤ ھ فرماتے ہیں:

وكان الإجماع من الصحابة والتابعين ومن بعدهم ممن أدركناهم أن الإيمان قول وعمل ونية، لا يجزئ واحد من الثلاثة بالآخر.

صحابہ و تابعین، اور ان کے بعد جن اہل علم کو ہم نے پایا ان سب کا اس پر اجماع ہے کہ ایمان قول وعمل اور نیت کا نام ہے، اور ان تینوں میں سے کوئی ایک چیز باقی دو کے بغیر کافی نہیں ہوتی۔ ( شرح اصول اعتقاد اہل السنہ ١٥٩٣)

امام ابو بکر عبداللہ بن زبیر الحمیدی رحمہ اللہ المتوفی ٢١٩ ھ فرماتے ہیں:

وأخبرت أن ناسا يقولون: من أقر بالصلاة والزكاة والصوم والحج ولم يفعل من ذلك شيئا حتى يموت فهو مؤمن، ما لم يكن جاحدا فقلت: هذا الكفر الصراح وخلاف كتاب الله، وسنة رسوله صلى الله عليه وسلم، وفعل المسلمين قال الله عز وجل: {وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ}

مجھے خبر دی گئی کہ کچھ لوگ کہتے ہیں: جو شخص نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج کا اقرار کرے، لیکن ان میں سے کچھ بھی نہ کرے یہاں تک کہ مر جائے، تو وہ مؤمن ہے، جب تک وہ ان کا انکار نہ کرے۔ تو میں کہتا ہوں: یہ تو صریح کفر ہے، اور اللہ کی کتاب، اس کے رسول ﷺ کی سنت، اور مسلمانوں کے عمل کے خلاف ہے۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے: {اور انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، اسی کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے، یکسو ہو کر، اور نماز قائم کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں یہی دین قیم ہے}۔
{(السنہ لابی بکر الخلال (٥٨٦/٣)،شرح اصول اعتقاد اہل السنہ (١٥٩٤)}

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ المتوفی ٢٤١ھ فرماتے ہیں:

من قال هذا فقد كفر بالله، ورد على الله أمره، وعلى الرسول ما جاء به.

جس نے یہ بات کہی، اس نے اللہ کے ساتھ کفر کیا، اور اللہ کے حکم کو رد کیا، اور رسول صلى الله عليه وسلم کی لائی ہوئی شریعت کو جھٹلایا۔
(السنہ لابی بکر الخلال ٥٧٦/٣)

امام محمد بن مسلم الطائفی المتوفی١٧٠ھ ،امام فضیل بن عیاض المتوفی ١٨٧ھ اور امام سفیان ثوری المتوفی١٦١ھ فرماتے ہیں:

لا يصلح قول الا بعمل.

قول ( زبان سے اقرار) عمل کے بغیر درست نہیں ہو سکتا۔ (السنہ لعبد اللہ بن امام احمد ٣٣٦٫٣٣٧/١)

امام ابن بطہ رحمہ اللہ المتوفی ٣٠٤ھ فرماتے ہیں:

باب بيان الإيمان وفرضه وأنه تصديق بالقلب وإقرار باللسان وعمل بالجوارح والحركات، لا يكون العبد مؤمنا إلا بهذه الثلاث، وقال لا تجزئ واحدة من هذه إلا بصاحبتها،ولا يكون العبد مؤمنا إلا بأن يجمعها كلها حتى يكون مؤمنا بقلبه، مقرا بلسانه، عاملا مجتهدا بجوارحه، ثم لا يكون أيضا مع ذلك مؤمنا حتى يكون موافقا للسنة في كل ما يقوله ويعمله، متبعا للكتاب والعلم في جميع أقواله وأعماله، وبكل ما شرحته لكم نزل به القرآن، ومضت به السنة، وأجمع عليه علماء الأمة.

باب: ایمان اور اس کی فرضیت کا بیان

ایمان دل کی تصدیق، زبان سے اقرار، اور جوارح و حرکات (اعضاء کے) ساتھ عمل کرنے کا نام ہے۔
کوئی بندہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک یہ تینوں چیزیں اس میں جمع نہ ہو جائیں۔ اور ان میں سے کوئی ایک بھی، دوسری کے بغیر کافی نہیں۔بندہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک: دل سے ایمان، زبان سے اقرار ،اور جوارح (اعضاء) سے عمل نہ کرے۔
پھر اس سب کے باوجود بھی اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک: اپنے قول و فعل میں سنت کے مطابق نہ ہو جائے۔
یہ جس قدر میں نے وضاحت کی اس پر قرآن نازل ہوا ہے اسی پر سنت جاری ہوئی ہے اور اس پر امت کے علماء کا اجماع ہے۔
(الابانۃ الکبری لابن بطہ ٧٦١/٢)

امام ابو بکر الآجری رحمہ اللہ المتوفی ٣٦٠ھ فرماتے ہیں:

باب القول بأن الإيمان تصديق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بالجوارح لا يكون مؤمنا، إلا أن تجتمع فيه هذه الخصال الثلاث، اعلموا رحمنا الله وإياكم أن الذي عليه علماء المسلمين أن الإيمان واجب على جميع الخلق، وهو تصديق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بالجوارح، ثم اعلموا أنه لا تجزئ المعرفة بالقلب والتصديق إلا أن يكون معه الإيمان باللسان نطقا، ولا تجزيء معرفة بالقلب، ونطق باللسان، حتى يكون عمل بالجوارح، فإذا كملت فيه هذه الثلاث الخصال: كان مؤمنا دل على ذلك القرآن، والسنة، وقول علماء المسلمين:

باب:ایمان کیا ہے ؟

بے شک ایمان دل سے تصدیق، زبان سے اقرار، اور جوارح (اعضاء) سے عمل کا نام ہے، اور کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک اس میں یہ تینوں صفات جمع نہ ہوں۔
جان لو! اللہ ہمیں اور تمہیں اپنی رحمت سے نوازے، کہ مسلمانوں کے علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ: ایمان لانا تمام مخلوق پر واجب ہے، اور وہ تین چیزوں پر مشتمل ہے: دل سے تصدیق، زبان سے اقرار، اور جوارح (اعضاء) سے عمل۔
پھر یہ بھی جان لو کہ: صرف دل کی معرفت اور تصدیق کافی نہیں، جب تک اس کے ساتھ زبان سے ایمان کا اقرار نہ ہو۔ اور دل کی معرفت اور زبان کا اقرار بھی اس وقت تک کافی نہیں، جب تک جوارح سے عمل نہ ہو۔ لہذا جب یہ تینوں صفات (دل کی تصدیق، زبان کا اقرار، اور جوارح کا عمل) مکمل ہوں تو وہ شخص مؤمن ہو گا۔اور اس بات پر قرآن، سنت، اور مسلمانوں کا اجماع دلالت کرتا ہے۔
(الشریعہ للآجری ٦١٢/٢)

امام الآجری رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:

وقد قال تعالى في كتابه، وبين في غير موضع أن الإيمان لا يكون إلا بعمل، وبينه النبي صلى الله عليه وسلم خلاف ما قالت المرجئة، الذين لعب بهم الشيطان.

اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب (قرآن) میں فرمایا ہے، اور متعدد مقامات پر یہ واضح کیا ہے کہ ایمان عمل کے بغیر نہیں ہوتا۔
اور نبی علیہ السلام نے بھی اس بات کو واضح فرمایا ہے، جو مرجئہ کے قول کے خلاف ہے، جن کے ساتھ شیطان نے کھیل کھیلا ہے۔
(الشریعہ للآجری ٦١٤/٢)

امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ المتوفی ٢٣٨ھ فرماتے ہیں:

غلت المرجئة حتى صار من قولهم: إن قوما يقولون: من ترك المكتوبات، وصوم رمضان، والزكاة، والحج، وعامة الفرائض من غير جحود بها إنا لا نكفره، يرجأ أمره إلى الله بعد؛ إذ هو مقر. فهؤلاء المرجئة الذين لا شك فيهم،

مرجئہ بہت زیادہ گمراہی میں چلے گئے یہاں تک کہ نہوں نے: جو شخص فرض نمازیں، رمضان کے روزے، زکوٰۃ، حج، اور تمام فرائض کو انکار کیے بغیر چھوڑ دے، تو ہم اسے کافر نہیں کہتے، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے؛ کیونکہ وہ اس اعمال کا اقرار کرتا ہے۔
یہ لوگ پکے مرجئہ ہیں (جن کے گمراہ ہونے میں) کوئی شک نہیں۔
(مسائل حرب ١٠١٥/٣)

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ المتوفی ٧٢٨ھ فرماتے ہیں:

الإيمان عند أهل السنة والجماعة قول وعمل كما دل عليه الكتاب والسنة واجمع عليه السلف وعلى ما هو مقرر في موضعه فالقول تصديق الرسول والعمل تصديق القول فإذا خلا العبد عن العمل بالكلية لم يكن مؤمنا.

اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک ایمان قول وعمل کا نام ہے جیسا کہ قرآن و سنت سے ثابت ہے اور سلف کا اس پر اجماع ہے، اور یہ بات اپنے مقام پر تفصیل سے ثابت ہے۔ قول سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق ہے، اور عمل اس قول کی تصدیق کرتا ہے۔
لہذا جب بندہ مکمل طور پر عمل کو ترک کر دے تو وہ مؤمن نہیں رہتا۔
(شرح عمدہ الفقہ ٨٦)

امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

لا خلاف بين الأمة، أن التوحيد: لا بد أن يكون بالقلب، الذي هو العلم واللسان الذي هو القول; والعمل الذي هو تنفيذ الأوامر والنواهي; فإن أخل بشيء من هذا، لم يكن الرجل مسلما; فإن أقر بالتوحيد ولم يعمل به، فهو كافر، معاند، كفرعون وإبليس.

امت کے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ توحید کے لیے ضروری ہے کہ: دل سے ہو یعنی معرفت، زبان سے ہو یعنی قول، اور عمل سے ہو یعنی اللہ کے اوامر ونواہی کی تنفیذ۔ اگر (بندہ) ان میں سے کوئی ایک چیز ختم کر دے تو وہ مسلمان نہیں رہتا۔
اگر وہ توحید کا اقرار کرے لیکن اس کے مطابق عمل نہ کرے تو وہ ہٹ دھرم کافر ہے، فرعون اور ابلیس کی طرح۔
(فتاوی درر السنیہ ١٢٥/٢)

شیخ الاسلام سلیمان بن ناصر العلوان حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

وقد اتفق أهل السنة والجماعة على أن تارك جنس العمل مطلقاً كافر والمراد بجنس العمل أعمال الجوارح فلا يجزئ التصديق بالقلب والنطق باللسان حتى يكون عمل الجوارح.

اہلِ سنت والجماعت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو شخص جنس العمل کو ترک کر دے وہ کافر ہے۔
اور جنسِ عمل سے مراد جوارح کے اعمال ہیں۔
پس صرف دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کافی نہیں، جب تک جوارح (اعضاء) کا عمل نہ ہو۔
(اللآلی الحسان فی کلام العلوان٧٠)

شیخ العلوان حفظہ اللہ مزید فرماتے ہیں:

إن تارك جنس العمل أي أعمال الجوارح مطلقاً كافر باتفاق المسلمين ولا ينفعه حينئذٍ قوله ولا اعتقاده فإن ذلك لا يصح بدون عمل.
وترى هذا مبيناً بطولٍ في الشريعة للآجري والإبانة لابن بطة وكتاب الإيمان لشيخ الإسلام ابن تيمية وأوائل المجلد الأول من فتح الباري للحافظ ابن رجب.
وليس هذا بلازم لتكفير أصحاب الكبائر كما يقوله أهل الإرجاء فإن السلف متفقون على أن من الأعمال أركاناً للإيمان يكفر تاركها ومنها واجبات لا يكفر تاركها.
وفي فتح الباري لابن رجب قال سفيان بن عيينة: المرجئة سمّوا ترك الفرائض ذنباً بمنزلة ركوب المحارم، وليسا سواء، لأن ركوب المحارم متعمداً من غير استحلال معصية وترك الفرائض من غير جهل ولا عذر هو كفر وبيان ذلك في أمر آدم وإبليس وعلماء اليهود الذين أقرّوا ببعث النبي صلى الله عليه وسلم بلسانهم ولم يعملوا بشرائعه.
ومن دعاوى أهل الإرجاء أنه لا يكفر أحد بالفعل ما لم يستحل أو يكذب أو يعاند الحق ويبغضه ويستكبر عنه.
وهذا قول غلاة الجهمية وهو خلاف الكتاب والسنة والإجماع فإن ساب الرسول صلى الله عليه وسلم كافرُ بالاتفاق دون اشتراط البغض أو الاستحلال.
وأجمع العلماء على كفر المستهزئ بالدين دون ربط ذلك بالاعتقاد بل يكفر بمجرد الاستهزاء الصريح ولو كان هازلاً أو مازحاً قال تعالى:
{قل أبا الله وآياته ورسوله كنتم تستهزءون لا تعتذروا قد كفرتم بعد إيمانكم}
فمناط الكفر هو مجرد القول.

جو شخص جنسِ عمل یعنی جوارح (اعضاء) کے تمام اعمال کو مکمل طور پر ترک کر دے وہ مسلمانوں کے اتفاق کے ساتھ کافر ہے۔
اس وقت زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق اس کو فائدہ نہیں دے گی کیونکہ (تصدیق اور اقرار) عمل کے بغیر معتبر نہیں ہیں۔
آپ اس کی تفصیل: الشریعہ للامام الآجری، الابانۃ الکبری لابن بطہ، کتاب الایمان لابن تیمیہ اور فتح الباری لابن رجب الحنبلی میں دیکھ سکتے ہیں۔
یہ بات (یعنی اعمال کے بغیر ایمان معتبر نہیں) اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم کبیرہ گناہ کے مرتکب کو کافر قرار دیتے ہیں، جیسا کہ مرجئہ (اہل سنت کے بارے میں) کہتے ہیں،
بلکہ سلف کا اس پر اجماع ہے کہ: کچھ اعمال ایمان کے اصل ہیں جن کا چھوڑنے والا کافر ہو جاتا ہے۔ اور کچھ اعمال واجبات ہیں جن کا چھوڑنے والا کافر نہیں ہوتا۔
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے فتح الباری میں نقل کیا کہ سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں: مرجئہ نے فرائض کے ترک کو صرف ایک گناہ قرار دیا، جیسا کہ حرام کاموں کا ارتکاب ہوتا ہے، حالانکہ دونوں برابر نہیں:
کیونکہ جان بوجھ کر بغیر استحلال کے حرام کا ارتکاب کرنا گناہ ہے، جبکہ بغیر کسی جہالت یا عذر کے فرائض کو ترک کرنا کفر ہے۔
اور اس کی مثال آدم علیہ السلام، ابلیس اور یہود کے علماء کے قصے میں واضح ہے: یہود کے علماء نے زبان سے نبی ﷺ کی بعثت کا اقرار کیا، لیکن ان کی شریعت پر عمل نہ کیا۔
اہلِ ارجاء کے دعووں میں سے ایک دعویٰ یہ ہے کہ:
کسی بھی شخص کو کسی عمل کی وجہ سے کافر نہیں کہا جا سکتا جب تک وہ اس عمل کو حلال نہ سمجھے، یا انکار نہ کرے، یا حق کا عناد اور بغض نہ رکھے، یا حق سے تکبر کرتے ہوئے حق کا انکار نہ کرے۔ یہ غالی جہمیوں کا قول ہے، اور یہ بات قرآن، سنت اور اجماع کے خلاف ہے۔ کیونکہ نبی ﷺ کی توہین کرنے والا شخص بالاتفاق کافر ہے، چاہے وہ اس عمل کو حلال نہ بھی سمجھے۔ دین کا مذاق اڑانے والا شخص بالاتفاق کافر ہے، اور اس میں عقیدے کی شرط نہیں، اگر وہ دین کا واضح مذاق اڑاتا ہے تو وہ کافر ہے چاہے وہ مذاق کے طور پر ہی ایسا کرے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
کہہ دو: کیا تم اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسول کا مذاق اُڑاتے ہو؟ عذر مت پیش کرو تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو۔ (التوبہ: 65-66)
پس کفر کی بنیاد بعض صورتوں میں محض قول (بات) پر ہوتی ہے۔
(اللآلی الحسان فی کلام العلوان ٨٠)
نوٹ: اس مضمون میں قرآن وحدیث کے دلائل ذکر نہیں کیے گئے صرف اہل سنت کا عقیدہ بیان کیا گیا ہے